حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی میں متعدد شعبے اپنی فعالیت انجام دے رہا ہے؛ جن میں سے کتابوں کی مرمت، شجرہ نویسی، کتابوں کو ڈیجیٹل کرنا،ریئل مینو اسکرپٹ(Real Menu Script) اور شعبہ تحقیق سرفہرست ہیں۔ مذکورہ مرکز اپنے محققین کی مدد سےمستقل احیائے علوم محمد و آل محمد میں مصروف ہے، اس ادارہ میں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں تصنیف وتالیف ہوکر زیور طبع سے مزین ہوچکی ہیں جن میں سے : تاریخ مدرسہ واعظین لکھنؤ(3/جلدوں پر مشتمل)، تاریخ مدرسہ باب العلم مبارکپور، تاریخ جامعہ جوادیہ بنارس، تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ(3/جلدوں پر مشتمل)، تذکرہ علمائے ہند کے متعلق کتاب نجوم الہدایہ(آٹھ جلدوں میں تیار اور ابھی کام جاری ہے)، انوار فلک(مختصر احوال علمائے ہند، ایلبم کی صورت میں تصاویر کے ساتھ، بہترین سرورق کے ساتھ دو جلدوں پر مشتمل)،کتاب اجازات علمائے بر صغیر(فی الحال دو جلدوں پر مشتمل)، تذکرہ علماء و حکمائے زیدپور، تالیفات شیعہ کا تعارف کشف الخزائن، مفتاح الاحوال اور تالیفات ہند کے عنوان سے اور ان کے علاوہ بہت سی کتابوں کے احیاء میں مشغول ہے۔
اس سینٹر کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔
مولانا موصوف کی زحمتوں کو سراہنا ہر صاحب دل کا فریضہ ہے بالخصوص صاحبان تحقیق اور ارباب قلم کا فرض بنتا ہے کہ اس امر میں موصوف کی حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانا آسان نہیں ہوتا اور قلم اٹھاکر تین جلدوں پر مشتمل پرحجم کتاب تحریر کردینا ہرکس و ناکس کے بسکی بات نہیں ۔ اسی چیز کے پیش نظر ہم لوگ مولانا کی زحمات کو سراہتے ہوئے متعدد عناوین کے تحت متعدد مضامین نذرقارئین کررہے ہیں اور ان تمام مضامین کا اہم منبع و ماخذ موصوف کی یہی کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس" قرار پائی ہے۔ امید ہے کہ یہ ادنیٰ سا نذرانہ قارئین کرام کے لئے لائق استفادہ قرار پائے گا۔
سلطان المدارس کا اجمالی تعارف:
مدرسہ سلطانیہ کا آغاز، نواب سعادت علی خاں کے مقبرہ سے ہوا، اس ضمن میں عزیز ؔمرحوم فرماتے ہیں: نواب سعادت علی خاں کے مقبرہ میں اس مدرسہ کاآغاز ہوا او ر سید العلماء کی تجویز سے مدرسین کا انتخاب ہوا ۔ شہر کے منتخب فضلا ء عہدہ مدرسی سے سر فراز کئے گئے ۔ مفتی صاحب کے متعلق بھی عہدہ مدرسی ہوا ، مدرسہ شاہی میں ایک مکان اور دس حجرے مفتی صاحب کے زیر اہتمام تھے ۔باقی تین حجروں میں جناب مفتی صاحب کے بھائیوں کا قیام تھا ۔ مفتی صاحب چھ بھائی تھے جو سب کے سب اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدرسہ میں مقیم و ملازم تھے ۔ تین چار حجر ے دوسرے حضرات طلاب کے استعمال میں تھے ۔ (ماہنامہ الواعظ لکھنؤ ۔جون ۱۹۷۴ءص ۱۷ ۔مضمون نگا ر: فاضل جلیل چودھری سید سبط محمد نقوی اکبر پوری مرحوم)
تجلیات عباس حصہ اول صفحہ ۸۲ پر ہے : مدرسہ کا اشتغال تقریباً تین سال رہا۔۱۲۶۲ ھ میں سلطان واجد علی شاہ کے جلوس کے موقع پر مدرسہ مقبرہ نواب سعادت علی خان سے آصف الدولہ بہادر کے امام باڑہ میں منتقل ہوا ۔
مقبرے سے امام باڑہ میں مدرسہ کی منتقلی کی وجہ کے سلسلہ میں چودھری سید سبط محمد نقوی اکبر پوری مر حوم فرما تے ہیں: قر ائن بتاتے ہیں اس وقت قیصر باغ کی تعمیر اور وہاں قیام شاہی کا منصوبہ تھا ایسی صورت میں علم دین اور علماء کا احترام اس کا مقتضی تھا کہ مدرسہ کہیں اور منتقل کر دیا جائے اور بہترین بدل مہیا کیا گیا ۔ کیونکہ آصفی امامباڑے میں مدرسہ، اسپتال اور مسافر خانے وغیرہ کے لئے پہلے سے ہی عمارتیں موجود تھیں۔ (ماہنامہ الواعظ لکھنؤ ۔جون۱۹۷۴ء ص۱۹۔ مضمون نگا ر: فاضل جلیل چودھری سید سبط محمد نقوی اکبر پوری مرحوم)
مدرسہ سلطانیہ کے قیام کی منظور ی: امجد علی شاہ کا قائم کردہ مدرسئہ سلطانیہ جس کا ذکر حکیم مرزا محمد کاظم نے اپنی سوانح عمر ی میں کیا ہے اس کے قیام کی منظوری ۱۲؍ربیع الثانی ۱۲۵۹ ھ (مطابق۱۴؍ مئی ۱۸۴۳ء بروایت نجات حسین عظیم آبادی) میں دیتے ہوئے محض چھبیس سو روپیے ماہوار کی منظوری خزانہ اظفر الدولہ سے د ی گئی تھی ۔ اس مدرسہ عالیہ میں درجات ِ عالیہ کے طلاب کرام کا وظیفہ ماہوار تک تھا ۔ یہ خیر جاری آج بھی لکھنؤ میں مدرسہ سلطان المدارس اور جامعہ سلطانیہ کی شکل میں موجود ہے ‘‘۔ (ماہنامہ الواعظ لکھنؤ ۔نومبر۱۹۷۰ء۔ ص۳۰ )
مدرسہ سلطانیہ کی تقریب ِ افتتاح کے پر مسرت موقع پر بادشاہ کی جانب سے شاندار شاہی دعوت کا اہتمام: علم دینیہ کی ترویج کیلئے بیس مدرسے جناب سلطان العلماء اور سید العلما ءکی تحریک سے قائم ہوئے جو انہی کی نگرانی میں تھے ۔ ایک بہت بڑا مدرسہ مدرسہ شاہی کے نام سے قائم ہوا جس کے مدرس اعلیٰ جناب سید العلما ء کے دوسرے صاحب زادے "مولانا سید محمد تقی صاحب قبلہ" تھے ۔جن کو بادشاہ کی طرف سے ممتا ز العلما ء اورفخر المدرسین جیسے خطابوں سے نوازا گیا تھا ۔ آپ کی ماتحتی میں دیگر مدرسین مثلاً جناب مولانا سید احمد علی صاحب قبلہ محمد آبادی، جناب مولانا مفتی محمد عباس صاحب قبلہ، مولانا شیخ علی اظہر صاحب قبلہ اور جناب مولانا سید حامد حسین صاحب قبلہ وغیرہ معقول تنخواہ پر ملاز م تھے ۔ اس مدرسے کے افتتاح کے روز جناب سلطان العلما ءاور سید العلما ء کی مع ان کے اولاد واصحاب و تلامذہ کے باد شاہ کی طرف سے دعوت کی گئی ۔ مصنف تجلیات کا بیان ہے: ۲؍جما دی الا ول۱۲۵۹ ھ جناب سلطان العلما ءو سید العلما ءمع اولاد واصحاب شہر کے تمام فضلاء اور طلباء کو لے کے مہمانی سلطانی میں تشریف فرماہوئے ۔ دیر تک باد شاہ سے باتیں رہیں ۔ آخر میں انعام و اکرام سلطانی پر فائز ہوئے ۔ یہ دعوت نہایت پر تکلف تھی۔
(تجلیات ص ۷۷) ماخوذ از رسالہ حقائق لکھنو ٔ جلد ا۔ ماہ رجب المرجب ۱۳۵۴ھ نمبر۱۲۔ مضمون نگار : جناب مولوی سید محمد باقر شمس لکھنوی ص۶۱ )۔
اصلی منبع: "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، ج1،تالیف: مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی؛ ناشر: انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس،دہلی( ہند)"۔
جاری ہے۔۔۔